مل خوشی جائے تو پھر درد کہاں رہتا ہے
غم زدہ ایسے کوئی فرد کہاں رہتا ہے
ایک جیسا کبھی موسم نہیں رہتا یہاں پر
جاتا موسم ہے بدل سرد کہاں رہتا ہے
مرد کی غیرتِ ایمانی ہے پہچان یہی
جس میں غیرت نہ ہو وہ مرد کہاں رہتا ہے
صاف رکھتا ہے بدن آنے نہیں دیتا خاک
آج انسان پسِ گَرد کہاں رہتا ہے
پھول کھلتے ہیں بہاروں میں مہکتا ہے چمن
رنگ جاتا ہے بدل زرد کہاں رہتا ہے
کچھ نظر آتا نہیں پیار ہو یا نفرت ہو
فرطِ جذبات میں پھر خرد کہاں رہتا ہے
اپنے شہزاد بدلتے ہیں نہج غربت میں
جب برا وقت ہو ہمدرد کہاں رہتا ہے