مل رہا تھا جسے شاد مانی

Poet: اےبی شہزاد By: اےبی شہزاد, Mailsi

مل رہا تھا جسے شادمانی کے ساتھ
اور کردار بھی تھے کہانی کے ساتھ

وقت سے پہلے بوڑھا ہونا ہی تھا اسے
کھیلتا جو رہا ہے جوانی کے ساتھ

زندگی کا بھروسہ نہیں ہم رہیں
زیست ممکن نہیں جاودانی کے ساتھ

میرا پیغام دینا اسے زندہ ہوں
نام اس نے لیا ہے نشانی کے ساتھ

خوبصورت حسیں لگ رہا چاند سا
آج دیکھا اسے در فشانی کے ساتھ

اس لیے میں اکیلا کھڑا ہوں یہاں
بڑھ گئی دشمنی بدگمانی کے ساتھ

پیار مل جائے شہزاد میرا مجھے
پھر ملے گی خوشی زندگانی کے ساتھ

Rate it:
Views: 185
17 Dec, 2022