ملا کر نظریں پھر سے چرانے والے
پیار کو جامع حقیقت پہنانے والے
تکتی ہیں نگا ہیں راستہ تیرا۔
آنکھوں میں شمع الفت جلانے والے۔
ملے فرصت کبھی پوچھ لینا ہم کو۔
دھڑکن میں سانسوں سے سمانے والے۔
دل کی بستی ھے تجھ بن ویراں۔
او ! صحرا کو گلشن بنانے والے۔
ہماری بھی فریاد نا رسائی سن لے۔
او ! روداد غم اپنی سنا نے والے۔۔
ہماری بھی سن لے کچھ منہ زبانی۔
او ! بیاں عشق خود سے فرمانے والے۔
زیب نہیں تجھ کو یوں گلہ محبت۔
غیروں کے کہنے میں آ جانے والے۔
گھائو گہرا ھے اپنے زخمی جگر ھے۔
او ! مرہم کافور کے لگانے والے۔
کوئی وعدہ وفا ہو جائے پھر سے ؟
میرے پیار پر انگلی اٹھانے والے۔
ہو جائے کوئی فیرا ادھر بھی۔
شمع انتظارکے بجھانے والے۔
زندگی کی سانسیں رواں ہیں تمسے۔
اسد خستہ کو جینا سکھانے والے۔