کبھی خوشی کی طر ح یہ سادگی کو بھول گئے
وہ ماہتاب سی ہر روشنی کو بھول گئے
حیا کے پھول ابھی تک کھلے ہوئے ہیں یہاں
نظر جھکا کے وہ ہر کسی کو بھول گئے
ہم اپنے پیار کا اظہار کر سکے نہ کبھی
جو بات دل میں تھی وہ ہر خوشی کو بھول گئے
میں اس کی یاد لیے در بدر بھٹکتا پھرا
’’ اُسی کے غم میں غمِ زندگی کو بھول گئے
بہا نہ ایک بھی آنسو کسی کی آنکھوں سے
بے حس تھے لوگ جو یہ دل لگی کو بھول گئے
ملا ہی کیا تھجے رسوائ کے سوا وشمہ
جسے تو پیار سمجھتا تھا عاشقی کو بھول گئے