اک کرم خاص کا وعدہ ہے ان کا آج
جو ادھوری رہ گئی تھی وہ ملاقات ہے آج
تاروں نے آنگن میں اجالا سا کر دیا ہے
چاندنی بھی نئی لے پہ گنگنا رہی ہے آج
چہرے پہ میرے قوس قزح ہے چھائی ہوئی
پڑھ نہ لیں کہیں رقم داستاں وہ آج
پھول کلیاں تتلی سرگوشیاں کر رہے ہیں
جھوم کر رقص کر رہی ہیں دھڑکنیں بھی آج
آئنے کے سامنے کھڑا دیکھ رہا ہوں
فخر و غرور سے محبت نے کیا سنگار آج
تقدیر مہرباں سی لگ رہی ہے مجھ پہ
جل رہا ہے یہ زمانہ بھی دیکھو آج
انتظار یہ طویل تر ہوئے جا رہا ہے
کٹتی نہیں ہیں یہ گھڑیاں بے قرار آج
یوں لگتا ہے دستک ہو رہی ہے بار بار
اپنی ہی چاپ پہ میں چونک رہا ہوں آج