تقاضہ ان سے فقط ایک ملاقات کا ہے
موسم ہجر میں خون ہوتا میرے جزبات کا ہے
درمیاں یادوں کے اشک یوں برستے ہیں
گماں یہ ہوتا ہے موسم یہ برسات ہے
کروں میں رب کو جو سجدہ تو خیال ان کا
تزکرہ ہاں میری کچھ ایسی عبادات کا ہے
مٹا دے نہ زمانہ ان کے دل سے نام میرا
دل پر قبضہ میرے ان صدمات کا ہے
انیس نام سے ان کے آباد میری تنہائی
رشتہ ان سے بہت گہرا میرے جزبات کا ہے