ملے جو تم سے ملا اک سرور کیا سمجھے

Poet: جنید By: جنید, Karachi

ملے جو تم سے ملا اک سرور کیا سمجھے
ہمارے دل کو ہوا ہے غرور کیا سمجھے

اسے یہ ضد کے تمہیں روز ملنے آنا ہے
تمہارا عذر دل ناصبور کیا سمجھے

ہمیں بھی شوق تو جلوہ گری کا تھا لیکن
ہمارے حصے میں موسیٰ نہ طور کیا سمجھے

اتارا جائے گا مجھ کو ضعیف ذہنوں پر
تھمائی جائے گی مجھ کو زبور کیا سمجھے

چھپا کے سینے میں اپنے تمہارا موم سا دل
کیا ہے آگ کا دریا عبور کیا سمجھے

مرض انا کا تمہیں لگ گیا ابھی لیکن
ہمیں بھی ڈھونڈو گے اک دن ضرور کیا سمجھے

تمہاری دید نے بخشی نظر کو تابانی
بسا ہے چاروں طرف نور نور کیا سمجھے

ہمارے یار کا تکیہ کلام ہے عارفؔ
ہر ایک بات پہ کہنا حضور کیا سمجھے
 

Rate it:
Views: 141
05 Aug, 2025