ممکن کسی خیال کا سایہ نہیں ابھی
کیونکہ میں اپنے آپ میں آیا نہیں ابھی
ممکن نہیں کہ سانحہ لفظوں میں ڈھل سکے
ہر لفظ کہہ رہا ہے میں یکجا نہیں ابھی
وہ شخص بے شعور ہے کچھ جانتا نہیں
جس نے کوئی سوال اٹھایا نہیں ابھی
ہم نے کسی کو ذہن پہ چھانے نہیں دیا
چہرے سے کوئی رنج ہویدا نہیں ابھی
اکثر حسین خواب میں یہ دیکھتا ہوں میں
اس نے کوئی حسین بنایا نہیں ابھی
صفحات چھین لے گی یہ وحشی ہوا نشاط
تم نے چراغِ حرف جلایا نہیں ابھی