منتظر آج بھی ہوُں چاہنے والوں کی طرح
آ بھی جا دِل کے دریچے میں اُجالوں کی طرح
بوُالہوس کویٔ نہ جذبے مِرے پامال کرے
بن کے رہتی ہوں میں ہر دِل میں مثالوں کی طرح
مجھ پہ نیندوں کے بھی بے خواب دریچے نہ کھُلے
خوُد سے اُلجھی رہی بے رنگ سوالوں کی طرح
میرے جذبوں میں ہے خوشبوُ مِرے ارمانوں کی
میرا ہر شعر ہے خوش رنگ حوالوں کی طرح
بالکونی میں کھڑی سوچ رہی ہوں کب سے
سالِ نو بھی نہ ہو بیتے ہوۓ سالوں کی طرح
ہجر کی چلتی ہیں شمشیریں ، جہاں چلتی ہوُں
اور میں سینہ سپر رہتی ہوں ڈھالوں کی طرح
میں تو رہتی ہوں رفاقت کے سبھی در کھولے
کویٔ آ تا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح
جو بھی کہنا ہے تمہیں، کھل کے وہ سب کہہ ڈالو
مجھ کو اُلجھاؤ نہ بے ربط خیالوں کی طرح
آئینے کستے ہیں آوازے مجھی پر عذرا
اور میں رہتی ہوُں انجانے سوالوں کی طرح