دن نے سانسیں توڑ دیں
شب ہو گئ
تیری یادوں کی سنہری دھوپ کو
چاند دستک دے رہا ہے باربار
کھل رہے ہیں در ترے ماضی کے
اور
دھوپ چھنتی آ رہی ہے رات میں
کتنے گزرے لمحے رقصاں ہیں یہاں
کتنے خوابوں سے سرکتے ہیں نقاب
اپنے بستر پر اداسیاں اوڑھے
سگریٹوں کا پورا پیکٹ پی چکا
رات کی خاموشیاں اور
میں یہاں
منتظر بیٹھا ہوں تیرے فون کا