منتظر بیٹھا ہوں تیرے لیے محبوب مری
دیکھتا ہوں میں ہر اک لمحہ یہاں راہ تری
میرے ویرانے میں آجا تو بہاروں کو لیے
اپنے معصوم سے چہرے کے نظاروں کو لیے
پیار سے تھام لے آکر مرے ہاتھوں کو ذرا
موتیے اور گلابوں بھرے ہاروں کو لیے
کس قدر پیاسی ہے تیرے لیے یہ روح مری
منتظر بیٹھا ہوں تیرے لیے محبوب مری
یاد ہے آج بھی وہ شام وہ ویران شجر
جس کے نیچے تو کھڑی سوچ رہی تھی بے خبر
بنسری کوئی بجاتا تھا کہیں دور بہت
اس کی تانوں کا ترے دل پہ ہوا کتنا اثر
اور کچھ سوچ کے چپکے سے پھر اک آہ بھری
منتظر بیٹھا ہوں تیرے لیے محبوب مری
بالیاں کانوں میں پہنے تو چلی آتی ہے
میرے خوابوں میں ، تصور میں مسکراتی ہے
چوڑیاں تیری کھنکتی ہیں خیالوں میں مرے
اور گھونگٹ سے مجھے دیکھ کے شرماتی ہے
تیری ہر سانس ہے پھولوں کی طرح خوشبو بھری
منتظر بیٹھا ہوں تیرے لیے محبوب مری
دور رہتی ہے ترے پاس میں آ سکتا نہیں
سوچتا ہوں کہ تجھے پا کے بھی پا سکتا نہیں
خود سے کہتا ہوں تجھے بھول ہی جاؤں لیکن
میری محبوب ! تجھے دل سے بھلا سکتا نہیں
کاش ہوتی نہ مجھے ایسی کوئی مجبوری
منتظر بیٹھا ہوں تیرے لیے محبوب مری