وقت کے بکھیڑوں سے الجھنا تو پڑتا ہے
زندگی کی زلفوں کو کھولنا تو پڑتا ہے
مجھ کو تم سے الفت ہے ۔ بد گمانیاں کیسی
ہر کھلی حقیقت کو مانننا تو پڑتا ہے
لہر کے تھپیڑوں پر تو صدف نہیں ملتے
سیپ کو سمندر میں ڈوبنا تو پڑتا ہے
کب تلک کوئی روکے وحشتوں کی شدت کو
آنسوؤں کو پلکوں سے چھلکنا تو پڑتا ہے
کیا میری حقیقت ہے کیا ہے آرزو میری
آپ سے مخاطب ہوں سوچنا تو پڑتا ہے
منزلیں محبت کی خود بخود نہیں ملتیں
درد کے جھروکوں میں جھانکنا تو پڑتا ہے
سحر کے حسیں جلوے اسقدر نہیں آساں
رات بھر ستاروں کو جاگنا تو پڑتا ہے