منصور سا پھر اٹھا نہیں ہے
یہ کھیل نیا سجا نہیں ہے
دل کا جو کوئی کھرا نہیں ہے
ہر شخص بھی ایک سا نہیں ہے
اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے
دل سے وہ مگر جدا نہیں ہے
ہر سو ہیں قیامتیں جہاں میں
محشر سا کہاں بپا نہیں ہے
کیا جانے وہ کیف و مستی کیا ہے
جس کو کہ تیرا نشہ نہیں ہے
آ کے تیرے در پہ سر جھکا دے
جس کا کوئی آسرا نہیں ہے
کیسے کسی کو خبر ہو اس کی
جس سمت کوئی گیا نہیں ہے
سب کو ہیں شکایتیں جہاں میں
ہے کون جسے گلہ نہیں ہے
اخلاص سے خالی ہے یہ دنیا
ان سا کوئی اب رہا نہیں ہے
سمجھے گا جلن تو کیسے اس کی
جو زخم تجھے لگا نہیں ہے
رومی سے خفا ہو کس لئے تم
انسان یہ کچھ برا نہیں ہے
اپنی ہے یہی نشانی رومی
کوئی ہمیں پوچھتا نہیں ہے