گو اور بھی ہیں آستانے بہت
نہ بہولیں گے منظر سہانے بہت
روپ کے ہیں مے خانے بہت
ڈوبنے کو ہیں مستانے بہت
وہ جدا سب سے شخص تھا
دے گیا دکھ کے جو نزرانے بہت
بنا دیتا ہے ‘ جلا دیتا ہے
خدا بننے کے اس کے بہانے بہت
ہم خیالوں ہی سے بہلتے رہے
کہا اسنے “ ہو گئی دیوانے بہت“
شخصیت اسکی تو تہ در تہ
پرکھنے کو چاہے پیمانے بہت
وہ شخص جو کنی کترا گیا
ناصر ! اسکے شاید دوستانے بہتم