منہ سے نکلی تو کہاں بات چلی جائے گی
بات ہی بات میں پھر رات چلی جائے گی
خشک موسم تو کٹے ہجر میں جیسے تیسے
کیا جدائی میں ہی برسات چلی جائے گی
آج میں ہار گیا، اس کا نہیں غم کوئی
اک سبق دے کے ہی یہ مات چلی جائے گی
وصل کی شب بھی جو آئی تھی، پتہ کس کو تھا
دے کےوہ ہجر کی سوغات چلی جائے گی
بے رخی اُس کی سوالات لئے آئی تھی
دے کے اظہر وہ، جوابات چلی جائے گی