اب بہاروں سے تجارت نہیں کی جا سکتی
موسمِ گل سے شرارت نہیں کی جا سکتی
ہم اگر موت کے پنجے سے نہیں بچ سکتے
زندگی تجھ سے بغاوت نہیں کی جا سکتی
خشک آنکھوں میں سمندر نہ اتر آئے کہیں
غم کے دریا کی کفالت نہیں کی جا سکتی
جن کے ڈسنے کا اندیشہ ہو سرِ راہ گزر
ایسے سانپوں کی وکالت نہیں کی جا سکتی
تو جو مدت سے ہی پتھر ہے مرے رستے کا
اب ترے شہر سے ہجرت نہیں کی جا سکتی
جس کی پاداش میں جل جائیں سنہری آنکھیں
عشق میں ایسی سخاوت نہیں کی جا سکتی
تو نے بخشا ہے مجھے ذوقِ محبت وشمہ
تیرے افکار سے نفرت نہیں کی جا سکتی