مانگا تھا اسے رورو کر خدا سے ایسے
گویا کسی مومن کی خاص دعا ہو جیسے
پانسہ قسمت کا میرے حق میں نہیں پڑتا
ماند محبوب وہ ہم سے خفا ہو جیسے
نہ ہو پاس تو چین نہیں ِاس دل مضطر کو
گویا وہ ! میرے درد کی دوا ہو جیسے
دہراتا ہی رہتا ہوں ذکرِ یار کو بات بے بات
وہ کسی سائل کی صدا ہو جیسے
نیند نہیں آتی رویا نہ کروں جب تلک
میرے اشک ترے خوابوں کی غذا ہو جیسے
سوی نہیں آنکھ بھی شب بھر انتظار یار میں
کسی مظلوم کو بے جرم سزا ہو جیسے
وہ نہ بولے میرے سرہانے تو صبح نہیں ہوتی
وہ میرے آنگن میں بلبل کی نوا ہو جیسے
آئے ان شوخ گلابوں پر خزاں کیونکر مانیٓ
وہ میرے گلشن کی بادِ صبا ہو جیسے