تمہاری محفل سے جا رہا ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا
اے میرے یارو لو میں چلا ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا
رہ وفا میں فنا ہُوا پر کسی کے آگے جُھکا نہیں جو
وفاؤں کا میں وہ قافلہ ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا
تیری دُعاؤں کے صدقے سے ہی وہاں پہ شاید میں بخشا جاؤں
یہ جاتے جاتے میں کہہ رہا ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا
مُجھے دوبارہ صدا نہ دینا کہ اب تو باہم نہیں رہے ہم
میں تیری دنیا سے جا چُکا ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا
نہ منزلوں کی خبر ہے مُجھ کو نہ راستوں کا پتہ ہے پھر بھی
میں اپنے گھر سے تو چل پڑا ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا
نہیں ہے جس کا حل اب تو کوئی ندیم بس اک سوا تمہارے
میں ایک ایسا ہی مسئلا ہوں مُجھے دُعاؤں میں یاد رکھنا