مُجھے مٹی کا نگر یاد نہیں
جانے کب چھوڑا تھا گھر یاد نہیں
یہ تو ہے یاد ہُوا پیار ہمیں
پہلے کِس نے کی نظر یاد نہیں
مِرا نام آۓ تو اَب کہتا ہے
پیار تھا اُس سے مگر یاد نہیں
یوں تو ہوں محوِ سفر میں بھی مگر
مُجھے جانا ہے کِدَھر یاد نہیں
میں نے تو یاد کیا تھا اُس کو
چَشم کب ہو گئ تَر یاد نہیں
اِس طرح ہِجر نے ناشاد کیا
مُجھے کوئ شام سحر یاد نہیں
لوگ بچوں کا لہُو بُھول گۓ
ماؤں کو لختِ جگر یاد نہیں
شہر سارا نیا تعمیر ہُوا
اَب کسی کو مِرا گھر یاد نہیں
اَرے باقرؔ تُو جو شاعر تھا کبھی
تُجھے کیوں اَپنا ہُنر یاد نہیں