مِلا جو کچھ بھی نہیں میری ذات میں تجھ کو
صلہ ملا تِرے حربوں کی مات میں تجھ کو
سمجھ بھی پاتا تُو دشمن کی چال کو کیسے؟
ہَرا گیا ہے وہ شخص گھات میں تجھ کو
ٹھہر گئے ہیں یہ بڑھتے قدم کہاں آ کر
مِلا ہے کون یہ آ کر حیات میں تجھ کو
جیوں گی لے کے تِرا نام یہ رہا وعدہ
میں وعدہ یاد دلاؤں گی ساتھ میں تجھ کو
کبھی جو ہو کے پیشماں تُو ملنے آ جائے
دِکھا دوں اپنی وفائیں بھی رات میں تجھ کو
سماج میں ہیں وہی نفرتیں، وہی تلخی
سکوں ملے گا نہیں شش جہات میں میں تجھ کو
سجن کی ایک جھلک دیکھنے چلی وشمہ
خوشی ملے گی بہت اپنی ذات میں تجھ کو