مٹا رھی تھی مجھے طرز تنھائی اس کی
میں کس کی جان بچاتا اپنی یا پھر اس کی
اداس کس لیے رھتا تھا روٹھتا کیوں تھا
کبھی نہ کھل سکی مجھ پر کوئی عدا اس کی
نہ میں نے کوئی صدا اس کو دی نہ وہ لوٹا
میری انا کے مقابل رھی انا اس کی
اسے خراج محبت ادا کرونگا ضرور
زرا میں یاد تو کرلوں کوئی وفا اس کی
وہ چند لوگ جو میری طرف تھے! کیا کرتے
ادھر تو اک خدائی تھی ھم نوا اس کی
نہ جانے کتنی محبت تھی اس کی نفرت میں
کئی دعاؤں سے بھتر تھی بد دعا اس کی