ماضی کے وہ گم گشتہ دیتے ھیں دلاسہ مجھ کو
مٹھی میں بھری ریت کا جیسے ھو سھارا مجھ کو
لمحوں کی خبر نہ احساس زیاں ھے
کسطر ح سے اس وقت نے گزارا مجھ کو
سپنوں کں طرح ایک مسلسل تھی حقیقت
اپنا تو وہ کہتا تھا اپنا نہ بنایا مجھ کو
چاھوں بھی تو وہ لمھہ بھول نہ پاؤں ایسے
نہ سوچا تھا کبھی جس نے پکارا مجھ کو
بہت تیز ھواؤں نے اس دنیا کے شجر پر
مانند پرنند ہر ٹہنی پہ اڑایا مجھ کو
یہ راہ کا پتھر ھے یا منزل کی نشانی
کیا دیتا ھے راھبر اشارہ مجھ کو
چھوڑ چلی دھوپ جب میرا ھی آنگن
بھاروں نے بہت دیر سے سنوارا مجھ کو
عمر بیت چلی جا کے یہ احساس ھوا عارف
اک تشنگی سی رھی جس نے ستایا مجھ کو