دل بتا زیر دام کیسے ہوا
یہ تو وحشی تھا رام کیسے ہوا
کل تلک زندگی پہ لٹو تھے
آج جینا حرام کیسے ہوا
عکس دیکھا ترا تو بھید کھلا
آئینہ تشنہ کام کیسے ہوا
ہم تو پابند تھے مداروں کے
فاصلہ چند گام کیسے ہوا
تیرے ہاتھوں پہ سبھی لکھا ہے
کام میرا تمام کیسے ہوا
آج بدلے ہوئے سے تیور ہیں
مینڈکی کو زکام کیسے ہوا
ہم تو چاہا کئے تھے تنہائی
ہر طرف اژدھام کیسے ہوا
نفرتوں کی بھلا بلا جانے
الفتوں کو دوام کیسے ہوا
چاند دیکھا تو بدحواسی میں
مڑتے مڑتے سلام کیسے ہوا
دل پہ زنجیر پڑ گئی کیسے
مستقل یہ غلام کیسے ہوا
حسن نے پھر کوئی دیا چکمہ
زخم یہ تیرے نام کیسے ہوا
جان جوکھوں میں ڈال کر جانو
میری قسمت میں جام کیسے ہوا
پاؤں میں بیڑیاں تھی خوابوں کے
رقص کا اہتمام کیسے ہوا
جو کھڑے تھے کئے ہوائی قلعے
انکا یہ انہدام کیسے ہوا
جس پہ اب تک نہ لب کشائی ہوئی
حرف وہ حرف عام کیسے ہوا
عادل رشید کی محاورہ غزل کے تجربے سے متاثر ہو کر لکھی ہے یہ غزل اور اسکے ہر شعر میں روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے عام محاوروں کو استعمال کیا ہے۔۔۔ضرورت شعری کے لحاظ سے کہیں کہیں رعائت لفظی کا سہارا لیا ہے۔۔جو محاورے استعمال ہوئے ہیں انکی ترتیب یوں ہے۔۔۔۔۔۔ زیر دام ہونا،رام ہونا،لٹو ہونا،جینا حرام کرنا،تشنہ کام ہونا،چند گام ہونا،کام تمام ہونا،بدلے ہوئے تیور ہونا،مینڈکی کو زکام ہونا،اژدھام ہونا،دوام ہونا،بدحواس ہونا،زنجیر پڑنا،چکمہ دینا،جان جوکھوں میں ڈالنا،پاؤں میں بیڑیاں ہونا،ہوائی قلعے تعمیر کرنا، لب کشائی کرنا، انشااللہ جلد اور محاورے اور ضرب الامثال کے ساتھ مزید کوشش کروں گا کہ آپ لوگوں سے شئیر کر سکوں۔۔۔والسلام