زبان میں روانی تھی قلم میں کمال تھا
شاعر تھا اگرچہ درد کا مگر بے مثال تھا
ترس جاتا تھا کبھی اِک خوشی کے لئے
وہ نوابِ رنج صرف لفظوں سے مالامال تھا
مکانِ سخن میں اُس کے الم رہتے تھے
مکان کے اطراف بھی غم کا جال تھا
سوتا تھا وہ کانٹوں کے بستر پہ روزانہ
اُس کے قریب کیا دن ، مہینہ کیا سال تھا
بزم کی در و دیوار بھی لیتی تھیں سسکیاں
درد کا سلطان وہ شاعر بڑا بے حال تھا
لفظوں میں دیکھائی دیتے تھے زخم محبت کے
ہر شعر اشکبار تھا محال تھا ملال تھا
جس شاعر نے نہ دیکھی خوشی کی جھلک
اُسی کا نام ، اُسی کا نام نہال تھا