مرے حصے کا ہر اک قطرہ سمندر نکلا
مگر افسوس کہ دل پیاس کا خوگر نکلا
بدنمائی کے اسے طعنے دیے دنیا نے
مگر اخلاق میں وہ حسن کا پیکر نکلا
ایک مدت سے یہ گوہر مری آنکھوں میں تھا
اب جو نکلا تو غموں کو بھی رلا کر نکلا
جس میں رکھتا تھا مرے خط وہ بڑی چاہت سے
محو حیرت ہوں ! اسی جیب سے خنجر نکلا
ہم ہی دیتے رہے یاقوت سے اس کو تشبیہ
کیوں کریں غم اگر اب دل وہی پتھر نکلا ۔