میرا نہیں کسی اور کا یار آج کل ہے
کرتا اسے وہ مخلص ہی پیار آج کل ہے
رب جانے کون سا صدمہ لگ گیا اسے ہے
لگتا شکل سے ہی وہ بیمار آج کل ہے
اچھے نصیب ہوتے مل جاتے وہ کہیں پر
ہوتا کہاں ہمیں اب دیدار آج کل ہے
کرنا سفر اسے پرتا ہے بہت زیادہ
ہوجاتا جلدی سے وہ تیار آج کل ہے
اس نے خرید اب سائیکل نیا لیا ہے
اس کی وہ تیز رکھتا رفتار آج کل ہے
کب سے چلا گیا ہے رہتا نہیں یہاں وہ
شہزاد رہتا دریا کے پار آج کل ہے