میری وحشوں کے حصار میں
میری چاہ میں میرے پیار میں
کبھی آ ۔ زمانے سے روٹھ کر
کسی آرزو کے خمار میں
تجھے زندگی کا پتہ ملے
تیرے انگ انگ میں گل کھلے
کہ بہار راہ حیات کی
ہے تہارے انتظار میں
تیرا نام ہے ۔ تیری جستجو
میرے ہر حرف میں ۔ پکار میں
مجھے منزلوں کا پتہ نہیں
میں کھڑا ہوں ایسے دیار میں
ابھی تک مگن ہے میرا جنوں
گرے آنسوؤں کے شمار میں
وہ سکون جسکی تلاش میں
ابھی تک ہے شعلہ ء زندگی
وہ سکوں ملے تو کہاں ملے
نہ ہجوم میں نہ قرار میں
مجھے بے کلی نے بتا دیا
کل شام اڑتے غبار میں
وہ سکوں نہاں ہے یہیں کہیں
تیری روح کے آئینہ دار میں
ذرا چل اناؤں کی قید سے
تیری جیت ہے تیری ہار میں