ابھی تو خوابوں کو تعبیر دینی ہیں
ابھی تو نیے رشتوں کو تکمیل دینی ہیں
ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں
ابھی تو تم نے کچھ سنا ہی نہیں
میری آنکھیں تو تم سے باتیں کرتی ہیں
جنہیں ابھی تک تم نے دیکھا ہی نہیں
میں تیرا نام لوں تو فضایئں رقس کرتی ہیں
پھولوں میں خشبوں آتی ہیں
کوئل اپنی کونج لگاتی ہیں
دل کی ڈھڑکنوں میں کیسی مدہوشی آتی ہیں
ابھی تو تم نے کچھ دیکھا ہی نہیں
پھر تم بدل کیسے گیے
مجھ سے بچھڑ کیسے گئے
میں نے تمہیں بہت سمبھال کے رکھا تھا
پھر تم میری حدوں سے نکل کیسے گیے
میرے سب خواب روٹھ گیے
رشتوں کے سب اعتبار ٹوٹ گیے
میری وہ انکہی باتیں
میرے دل میں ہی قید ہوگئی
میرے لفظ کھو گیے اور
میری زندگی اک نامکمل شعر ہو گئی