میری زندگی کے چار دن
گزرے کہاں کچھ یاد نہیں
مہکے پلوں میں جو لوگ پاس تھے
کھوئے کہاں کچھ یاد نہیں
مجھے یاد ہے وہ لمحہ حسین
جب آ ملا تھا مجھ سے وہ اجنبی
میرے دل کے نگر میں وہ آ بسا
کب پہنچا وہاں کچھ یاد نہیں
یہ سوچا تھا کب کہ ہجر بھی ہے
ہاں سکھ کے ساتھ دکھ بھی ہے
مجھ سے مل کر وہ چھن گیا
ہوا کب جدا کچھ یاد نہیں
عائش تاریکی کا تھا وہ سفر
گزرنے میں جس کو صدیاں لگیں
پہنچ کر منزل پہ بھی الجھ گئے
ہم جائیں کہاں کچھ یاد نہیں