میری سوچوں میں کبھی چھاتے ہیں منظر
ہر سانس سانس کو یہ لبہاتے ہیں منظر
میں نے بادلوں کی گھٹاؤں میں دیکھا
تیرے آنچل کی طرح لہراتے ہیں منظر
نہ جانے کس کی صدا سی اٹھی ہے
کہیں سرابوں میں پھر آتے ہیں منظر
ہواؤں سے کرم کی تھپکیاں پاکر
میری نیندوں کو روز سلاتے ہیں منظر
الجھنیں، دھڑکنیں، اور کچھ کروٹیں
کس کس پہر کو جگاتے ہیں منظر
سارے جہاں سے دانہ دانہ چُن کر
کچھ سکوں اب بھی لاتے ہیں منظر
کئی دنوں کی عبث ویرانیوں کے بعد
کبھی اُس بام سے آتے ہیں منظر
اِن سرگردانوں کے رُخ کو سنتوشؔ
آخر یہ کہاں کہاں ٹھہراتے ہیں منظر