دو گھونٹ پی لوں تو ضرب عشق کا سماں ہوتا ہے
جام کے پیالے میں ان کے لبوں کا گماں ہوتا ہے
احساس تنہائی کا دامن ٹوٹ جاتا ہے اس پل
کہ صنم دور ہوتے ہوئے بھی تو یہاں ہوتا ہے
ان سے ملنے کا بہانہ تو یہی ہے میرے پاس
ہوش و حواس میں ایسا منظر نصییب کہاں ہوتا ہے
بنا اجازت انہیں خیال میں لئے ہم مچلتے ہیں
مجھ بدنصیب خاکی سے اک یہی تو گناہ ہوتا ہے
نہیں کوئی گرفت مگر، محدود وقت لئے آتا
اک سانس بھی جسکے بن مشکل، کچھ پل مہماں ہوتا ہے
رگ جاں مہیں ہوتی محسوس ما نند طوفاں کی گھڑی
بعد جدائی جذبوں کا حال بھی آتش فشاں ہوتا ہے
بار بار ملتے کردار اک سے سفر میں کیوں کر
میں اس کا مسافراور وہ منزل کا نشاں ہوتا ہے
مگر بھول جاتا ہے بے مروت جاتے وقت اے سبحانی
اک ہی جھلک سے روشن میرے دل ک اجہاں ہوتا ہے