میری ناہید سخن میری خطا معاف کرو
میری تقصیر محبت و وفا معاف کرو
میرے باعث ہی ملا تجھ کو یہ ناسورِ کہن
پھر نہ کردوں میں اسے آج ہرا معاف کرو
مجھ کو خدشہ ہے تجھے ہوگا تکلف لیکن
شکوئہ عشق، مری آہ و بکا معاف کرو
مجرمِ عشق کو تھا ہی نہیں انجام کا علم
اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا معاف کرو
پھر نہ چھڑ جائے کہیں تار ترے قلب و جگر کا
ساز دل کی مری بے تاب صدا معاف کرو
میں نے امید کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
تشنہ سامان تجھے چھوڑ دیا معاف کرو
خارِ احساس کھٹکتا ہے مری روح میں بھی
غنچہٴ دل بھی ہے مرجھایا ہوا معاف کرو
میرا سر بارِ ندامت سے ہے بوجھل میں نے
یاس و حرماں کے سوا کچھ نہ دیا معاف کرو
گو تری شمع پہ مرنے کا شرف پا نہ سکا
پھر بھی تیرا ہوں مجھے بہر خدا معاف کرو
تیری ناکام محبت کا خلیلی# ہے مزار
اس سے تم کو ہو اگر کوئی گلہ معاف کرو