میری نظر کے سامنے اجڑا ہے میرا گھر
ٹوٹے ہوئے مکان کی مجھ کو نہیں خبر
ہم تو لٹے تھے قافلے کے پاسبان سے
دل میں چھپا ہوا تھا یونہی گھاتیوں کا ڈر
مدت سے میرے لب پہ ترا نام تو نہیں
پر دل کی دھڑکنوں پہ ہے اب بھی وہی اثر
جانے وہ شخص کون سے دیسوں میں کھو گیا
دل ڈھونڈتا ہی رہتا ہے جس کو اِدھر اُدَھر
چاہے مرے شریر نے تجھ کو نہیں چھوا
تیرے دل و دماغ پہ ہے تو مرا اثر
دیوار بن کے آتے رہے لوگ سامنے
افسوس کوئی نہیں بنا رستے میں آ کے در
دیپک یہاں پہ کوئی نہیں درد آشنا
روئے گا کس کے شانوں پہ تو رکھ کے اپنا سر