میری وفاؤں کا کوئی صلہ دیجیئے
میری رگِ لہو میں زہر ملا دیجیۓ
میں گماں لئے بیٹھا ہوں کوئی آئیگا
میرے دروازے کی زنجیر ہلا دیجیۓ
زخم پے زخم کھا رہا ہوں مگر اب
تیرے در پے آں پڑا ہوں دوا دیجیۓ
مخلصی کے زمانے گذر گئے اور اب
جناب عشق کیجیۓ اور دغا دیجیۓ
دل اور جلائو کے اس سوغات سے
بچ جائوں پھر بددعا دیجیۓ
دیکھنا چاہتے ہیں کسی حسن ور کو
اس ستمگر کو آئینا دیجیۓ
آج طبیت بہت اداس ہے ساقی
آج شراب میں کچھ ملا دیجیۓ