جب بھی کسی سے مراسم بڑھائے ہیں
ہم نے تو دکھ ہی دکھ پائے ہیں
جس کسی کو سنائی ہے روداد اپنی
اسے سن کر اس نے آنسو ہی بہائے ہیں
بستر مرگ سے اٹھ اٹھ کے دیکھ رہا ہوں
کہ شاید وہ میری عیادت کو آئے ہیں
یہ محبت کا کھیل ہی کچھ ایسا ہے
ہم نے تو اس میں زخم ہی کھائے ہیں
ہمارے حال سے وہ کچھ ایسا بے خبر رہا
جس کی خاطر دنیا بھر کے غم اٹھائے ہیں
دوستو اصغر کا چہرہ نہ ڈھانپو آج
شاید وہ میرے آخری دیدار کو آئے ہیں