میرے اک دوست کی کمی کے بغیر
یاد کرتے ہیں شاعری کے بغیر
تیرے ہوتے ہوئے تھا سلسلہ یوں
اب نہیں دوست دوستی کے بغیر
یہی وہ گلیاں تھیں ساتھ انکا
پھر وہ پردیس جا بسی کے بغیر
پاؤں میں بیڑیاں تھی خوابوں کی
دل کی حدت کی راگنی کے بغیر
ہم تو پابند تھے مداروں کے
میرے ہونٹوں پہ تشنگی کے بغیر
چاند دیکھا تو بدحواسی میں
زخم یہ تیرے بندگی کے بغیر
عکس دیکھا ترا تو بھید کھلا
پھر بھی ممکن ہے سادگی کے بغیر
جس پہ اب تک نہ لب کشائی ہوئی
چاند تاروں کی روشنی کے بغیر