میرے خوابوں میں آجانا نہ ہوا
بات کر کے غضب کیا نہ ہوا
خواب مٹی کے ہو گئے اپنے
اپنی آنکھوں کا رتجگا نہ ہوا
گھر سے جاتی نہیں ہے ویرانی
اپنے گھر سے آشنا نہ ہوا
غم ہی بخشے تمہاری ہجرت نے
اپنے آنگن میں ہی ہوا نہ ہوا
بیٹھے رہتے تمہارے گلشن میں
جیسے بلبل کی اک صدا نہ ہوا
دو گھڑی غم بھلا کے دیکھتے ہیں
بہت ان سلسلوں کو سہہ نہ ہوا
اب جو مجھ سے خفا یہ قسمت ہے
وشمہ دنیا سے یوں جدا نہ ہوا