میرے خیال میں یہ کیسا خیال ہے
کہ کوئی پوچھے ابکہ کیا حال ہے
دل کی ترجیحات پہ گھٹاؤں سے نہ ملو
یہاں تو ہر زلف کا اپنا جال ہے
اپنا ماضی جھاڑ کر تو پت جھڑ پاؤ گے
آئیندہ کی امید پہ یہ حال بے حال ہے
جوڑ بنے وہاں جہاں دل نہیں ملتے
کوئی نہیں سوچتا کہ زندگی کا سوال ہے
ہم تو ہم ہی سے پریشاں بہت ہیں
مگر جیء رہے ہیں کیسی مجال ہے
جو ضروری لگے وہاں ہی رجوع کرو
بے مقصدی میں اکثر زندگی کا زوال ہے