میرے دل سے تو کبھی ایسی حماقت نہ ہوئی
آپ کے بعد کسی سے بھی محبت نہ ہوئی
آپ نے لاکھ ستم مجھ پہ کئے ہیں پھر بھی
میرے ہونٹوں پہ کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی
آپکی یاد میں جیسے ہوئی حالت میری
اس سے پہلے کبھی ایسی مری حالت نہ ہوئی
شوقِ دیدار میں آنکھیں بھی ہوئی ہیں پتھر
اپنی خواہش کی کبھی دیکھو زیارت نہ ہوئی
اس پہ واری ہے شب و روز جوانی اپنی
پر محبت یہ کبھی اپنی ریاست نہ ہوئی
اس کی سنگت میں رہی وشمہ تماشا بن کر
اپنے بیمار کی پھر بھی تو عیادت نہ ہوئی