سب بدلتے نصاب دیکھے ہیں
ہم نے ایسے سراب دیکھے ہیں
پھول سوکھے ہیں جو کتابوں میں
میں نے ان کے عذاب دیکھے ہیں
جن کی تعبیر کچھ نہیں ہوتی
میں نے ایسے ہی خواب دیکھے ہیں
لوگ سچے ہیں جو بھی دنیا میں
ہم نے زیرِ عتاب دیکھے ہیں
جب برستی ہے کھل کے کالی گھٹا
ہم نے صحرا سراب دیکھے ہیں
تم نے پایا ہے جس کو دنیا میں
ہم نے بس اس کے خاب دیکھے ہیں
تم محبت کی مالا جپتے ہو
ہم نے اس کے حساب دیکھے ہیں
عشق کے سارے باب دیکھے ہیں
جی ہاں بالکل جناب دیکھے ہیں
تم کو دیکھا تو یوں لگا مجھ کو
جیسے تازہ گلاب دیکھے ہیں
تو نے اک جھوٹا خاب دیکھا ہے
ہم نے تو بے حساب دیکھے ہیں
تم کیا جانو میری قربانی
ہجرتوں کے عذاب دیکھے ہیں
جانے کب آئیں گے مرے اچھًے
وقت سارے خراب دیکھے ہیں
ہم نے محفل میں بیٹھ کر سارے
چہرے وہ بے نقاب دیکھے ہیں
میرے سارے سوال باقی ہیں
تیرے سارے جواب دیکھے ہیں