مرا من اکتا گیا تھا یا تھی لذتِ غریبی
مرا دل کہہ رہا تھا اب آرزو نہیں ہے
یہ جودھتکار دیا گیاہوں بھلا کیوں ہو اس پہ شکوہ
یہاں سب کے والی وارث مرا کوئی نہیں ہے
مرا دل ہے آبدیدہ پھر بھی ہے چپ سادھی
وہ جو اک آہ کو سمجھ لے ایسا سامع نہیں ہے
ہیں بال وپر تو خوب سبھی دیکھتے ہیں لیکن
کیا گزر رہی اہلِ قفس پہ کوئی دیکھتا نہیں ہے
ایسے میں سنبھالوں خود کو یا حوصلہ دوں تم کو
مرے پاس جانِ جاں کوئی چارہ نہیں ہے