میرے نقش قدم بھی دیکھ ہوا لے گئی آخر
حسرت دل امید آہ قضاہ لے گئی آخر
یہی چرچے ہیں بڑے طیش میں رہتے ہیں آج کل
تتلی کوئی اس لب کی صدا لے گئی آخر
بجھتی ہوئی آنکھیں اک ٹوٹا ہوا سا دل
کیا اس کے سوا موت بتا لے گئی آخر
آندھی وہ تند تیز تھی شاید کہ منتظر
بستی کا ایک گھر بھی اڑا لے گئی آخر
صادق تقدیر مجھ پہ مہربانی کیا کرتی
پت جڑ خزاں بہار کیا کیا لے گئی آخر