شام جی بھر کہ جب رلائے ہیں
تری صورت ہی یاد آئے ہیں
میں بھی سنتی ہوں زندگی کی مگر
زیست تیرے ہی گیت گائے ہیں
مسکاں دیکھوں جو تیرے ہونٹوں پر
میرے چہرے پہ لوٹ آئے ہیں
میرے مالک یہ ماجرہ کیا ہے
کیوں یہ دنیا مجھے جلائے ہیں
اس کو پوچھے خدا کرے کوئی
مرے شعروں کو جو چرائے ہیں
ایسا جادو وہ کر گیا مجھ پر
یاد آنکھوں کی جگمگائے ہیں
تیری میری وفاؤں کا ہمدم
تمغہ سینے پہ اب سجا ئے ہیں
کوئی موسم بھی ساز گار نہیں
پھول خوشبو کو کیا بھلا ئے ہیں
چاند اترا ہے گیت سننے کو
وشمہ آنگن میں گنگنائے ہیں