میرے ہم نوا میرے ہمسفر تیرا وعدہ ہم تو نبھائیں گے
جو قرار ہم میں و تم میں تھا اسے اور پختہ بنائیں گے
کبھی بے خودی میں ملیں گے ہم تبھی راز دل بھی کہیں گے ہم
جو دلوں میں تھیں کبھی حسرتیں تو انھیں کو اب تو مٹائیں گے
نہ تو ظلمتوں میں رہے کوئ نہ تو نفرتوں کو فروغ ہو
تو محبتوں کے چراغ کو اسی تیرگی میں جلائیں گے
نہ ملے کبھی کوئ تشنہ لب تو پھرایسی ساقی گری ہی ہو
کوئ امتیاز نہ ہوکبھی تو سبھی کی پیاس بجھائیں گے
ترے دم سے ہے مری زندگی تو مجھے کسی کا بھی غم نہیں
جو بھنور میں کشتی پھنسے کبھی ترے دم سے پار لگائیں گے
یہی اثر کی تو ہے آرزو کہ اسی پہ اس کو قرار ہے
نہ کسی کے در پہ یہ سر جھکے نہ کسی پہ نظریں جمائیں گے