میرے ہے طرف پتھر ہیں میرے آگے میرے پیچھے پتھر
Poet: Hafeez ur rehman By: hafeez ur rehman, Peshawar میرے ہے طرف پتھر ہیں میرے آگے میرے پیچھے پتھر
خوش نُما پتھروں کے چاہنے والے پتھر
اغراض کے پردوں میں اظہارِ محبت کرتے پتھر
دل پتھر ذہن بھی پتھر سا لیئے سوچنے والے پتھر
ذیست کا بوجھ اُٹھائے ٹھوکریں کھاتے پتھر
جس طرف دیکھو چلتے پھرتے بولنے والے پتھر
بھوک سے مرتے ہوئے فاقوں کے ستائے پتھر
غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے پتھر
ظلمُ و جَور کے ہاتھوں چیختے چلاتے پتھر
پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکنے والے پتھر
اُچھلتے کودتے ناچتے گاتے پتھر
ہنسنے والے رونے ولے پتھر
بیٹیاں بیچتے سودا جسم کا کرتے پتھر
پتھر ہیں خریدار بیچنے والے پتھر
کاٹنے کے ماہر کٹنے کے عادی پتھر
مارنے والے مرنے کے عادی پتھر
خود کش کے نام پر انسانوں کو اُڑاتے پتھر
بم دھماکوں میں جان سے جانے والے پتھر
ڈھیر سوختہ لاشوں کے لگاتے پتھر
ڈھیر سوختہ لاشوں کے اُٹھنے والے پتھر
تلاش روزگار میں در در بھٹکتے پتھر
کچھ نہ پا کر مایوس ہاتھ خالی لوٹنے والے پتھر
بلکتا دیکھتے بھوک سے بچوں کو بے بس پتھر
کچھ نہ بن پڑنے پر تقدیر کو کوسنے والے پتھر
شِفاخانوں میں شفا بیچتے بے حس پتھر
نام پہ مسیحائی کے بیماروں کو لوٹتے پتھر
رگڑ کر ایڑیاں بیماریوں مر جاتے پتھر
زہر پھانکتے ہر دم زہر بانٹنے والے پتھر
بلند محلوں میں رہتے ہیں چند خاص ترشے پتھر
بن کے لیڈر قومِ مردہ کو بنھبوڑنے والے پتھر
پیٹ قبروں سے بڑے کردار کے چھوٹے پتھر
اپنی نسلوں کے لئے انبار دولت کے لگانے والے پتھر
لوٹنے کے ماہر نہایت ہُنر مند پتھر
لٹنے کے عادی ہر حال میں لٹنے والے پتھر
جن کو قارون بھی دیکھ کر شرمائے ایسے پتھر
لباس جن کے اُجلے اندر سے میلے پتھر
اِس حیرت کدہء ملک میں کچھ اور بھی ہیں ایسے پتھر
دین کے نام پہ دھوکہ دیتے لمبی عباوءں والے پتھر
مذہب کے نام پہ درس انسانیت کا ایک دوسرے کو دیتے پتھر
نام پہ مذہب کے گلہ اِک دوسرے کا کاٹنے والے پتھر
خانقاہیں پتھر کی زاہد پتھر عابد پتھر
ممبروں پہ بیٹھے محراب میں جھکنے والے پتھر
الفاظ پتھروں کے برساتی زبانیں پتھر
تقلید میں پتھروں کی جھکنے والے پتھر
اُونچی اِنصاف کی مسند پہ بیٹھے قاضی پتھر
ہاتھ میں پیمانہ لئے انصاف بیچنے والے پتھر
اُٹھائے کشکول انصف کی دھائی دیتے پتھر
انصاف بیچتے انصآف بیچنے والے پتھر
عقوبت خانوں میں سرکار کے ظلم ڈھاتے پتھر
تاب نہ لاتے ہوئے تشدد کی مرنے والے پتھر
فرعون پتھر نما آقا ہیں ہاتھ سامنے باندھے پتھر
کہنے کو محافظ ہیں مگر لوٹنے والے پتھر
کارخانہ نُما درس گاہوں میں ڈھلتے طالب پتھر
درس گاہوں میں درس دینے والے معلم پتھر
غرض جن کا تیزاب بھی نہ کچھ کر پائے ایسے پتھر
گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے پتھر
پہلے غاروں میں انسان تھا رہتا اور دور تھا پتھر
بعد صدیوں کے شہر آباد رہنے والے پتھر
اب بھی شک ہے ایندھن جھنم کا کو ن سا ہونگے پتھر
زندگی اک دوسرے کی عذاب بنانے والے پتھر
پتھروں میں رہتے ہوئے احمر میں بھی ہو گیا پتھر
میں جہاں بھی گیا مجھ کو تو ملے پتھر
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






