میں اب بھی منتظر ہوں تیرے قدموں کا میری محبوب !
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanمیں اب بھی منتظر ہوں تیرے قدموں کا مری محبوب
مری تنہائیوں میں آج بھی تو گیت گاتی ہے
بھلا پایا نہیں میں تجھ کو دنیا بھر کے غم سہہ کر
سناٹا رات کا چھائے تو تیری یاد آتی ہے
کلائی میں تری کیا آج بھی ہیں چوڑیاں میری
مجھے کیا آج بھی پہلے کی طرح یاد کرتی ہے
ابھی تک کیا تری بے چینیاں ہیں پہلے ہی جیسی
ابھی بھی نام پر میرے تو کیا پہلے سا مرتی ہے
ابھی بھی رات بھر تو جاگتی ہے میری فرقت میں
تری پلکوں پہ تارے ٹمٹماتے ہیں جدائی کے
تو کھڑکی کھول کر کیا دیکھتی ہے آج بھی باہر
کیا نوحے گونجتے ہیں آج بھی اس نارسائی کے
مرے بن آج بھی خود کو ادھورا کیا سمجھتی ہے
تری آنکھوں میں کیا اب بھی وہ پہلی سی محبت ہے
مرے سینے سے لگ کے موند لے تو اپنی آنکھوں کو
ترے دل میں وہی بے نام سی کیا اب بھی حسرت ہے
مری بانہوں میں سونے کی تمنا جاگتی ہے کیا
مری دلہن بنے کیا اج بھی ارمان ہے باقی
بتا دے پوچھ کر اپنے جواں احساس سے اتنا
ہمارے پھر سے ملنے کا کوئی امکان ہے باقی ؟
میں اب بھی منتظر ہوں تیرے قدموں کا مری محبوب
مری تنہائیوں میں آج بھی تو گیت گاتی ہے
بھلا پایا نہیں میں تجھ کو دنیا بھر کے غم سہہ کر
سناٹا رات کا چھائے تو تیری یاد آتی ہے
میں اب بھی منتظر ہوں تیرے قدموں کا مری محبوب
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






