میں اس کا تھا اسکا ہوں اسے یاد دلانا
وو رویے جب تب اسے میری ہنسی یاد دلانا
گاوں میں کھیلتے کھیلتے کانٹوں پے ہو اگر چلنا اسکا
تو خون کو پانی سے نا دھونا اسے یاد دلانا
خچروں پے سفر کیا ہم نے گھوڑوں کا شوق نہیں تھا
وہ پیدل چلے تو صاحب اسے آفتاب کی سواری یاد دلانا
پانی کی قلت تھی کنویں سے رسیاں کھینچ کر پتیلے بھرتے
اب وہ پانی پیتے بھول جائے تو اسے میری نیت یاد دلانا
پیڑوں کی چھاؤں میں طوطوں کے بچے شکار ہوتے ہیں
شاہین ڈھونڈھتے ہیں کھلے پہاڑ اسے یاد دلانا
مجھ سے محبّت کی ہے خواری انام ہے یہی
دروازوں پر دستک محبوب کے دشمن دیتے ہیں اسے یاد دلانا