میں اسےنہ اس کاپیار چاہتا ہوں
عمربھرکہ لیے اک دلدارچاہتاہوں
شائدہ وہ اپنی کشتی میں بٹھا لے
حیات کا سمندرکرنا پارچاہتا ہوں
وہ مجھے گرداب میں چھوڑدےگی
پھربھی کرنا اس کااعتبارچاہتاوں
اس کہ ہجر میں جل کردیکھ لیا
اب اس یار کا کرنا دیدار چاہتا ہوں
میری خوشیوں کو خزاں کھا گئی
زندگی میں اب فصل بہارچاہتاہوں