میں اپنی سوچ کی ہر سوچ میں یہی سوچوں
Poet: Yaseen Shahi By: Yaseen Shahi, Islamabadمیں اپنی سوچ کی ہر سوچ میں یہی سوچوں
نجانے تجھ سے عقیدت کا کون سا بندھن
ہے چاہتوں کا تعلق یا دوستی کی گرہ
یا کوئی رشتہ صبح ازل ہے رشتوں کا
کہ رات دن تیری سوچوں میں مست رہتا ہوں
میں تیری یاد کے ان مٹ نقوش میں ڈوبا
یوں تیرے پیار کی موجوں میں مست رہتا ہوں
تیرے خیال کو معراج عاشقی سمجھوں
تیرے معراج کو جمال شاعری سمجھوں
تیرے وصال کو معراج زندگی سمجھوں
مگر میں صبح و مسا سوچ سوچ کر سوچوں
کہ تیرا ہجر بھی آئے گا ایک دن آخر
تو میرے ذہن کی سب کہکشائیں ٹوٹیں گی
نہ تیرے قرب کے لمحات لوٹ پائیں گے
نہ تیری یاد کی یہ کشتیاں ہی ڈوبیں گی
مگر میں حسن ازل سے سدا دعا گو ہوں
میرے خدا میرے دل کی یہ التجا سن لے
کہ اب کی بار جو لمحات قرب یار آئیں
تمام عالم موجود بھی گواہی دے
ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں شاہی
ﻧﮧ دھڑکنوں کی صدا تک ہمیں سنائی دے
مجھے قرب کی لذت سے آشنا کر دے
وہ رات لاکھوں برس پر محیط ہوجائے
تو ایسی صبح کے سورج کو اندھا کردینا
جو میرے یار کو مجھ سے چھڑا کے لے جائے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






