میں اپنے اشک پلکوں سے گرا دیتا تو اچھا تھا
میں اس دریا کو دھرتی پہ بہا دیتا تو اچھا تھا
رہوں میں کب تلک اپنے بدن کے چیتھڑے سیتا
میں اپنا سر ہی تن سے کر جدا دیتا تو اچھا تھا
میں اپنی نا توانی بھی غموں میں بانٹ دیتا تو
میں نسبت ماں کی بچوں کو سلا دیتا تو اچھا تھا
میں یہ بھی تو نہ کر پایا میں اس کو نہ بھلا پایا
وہ میرے خط مرے فوٹو جلا دیتا تو اچھا تھا
نہ کر پایا میں اظہار_محبت برملا ان سے
اسے اپنی غزل ہی میں سنا دیتا تو اچھا تھا
تمھارے ہاتھ پر میں نے دیا تھا رات اک بوسہ
میں اس سے معذرت کرتا بتا دیتا تو اچھا تھا
گھرا رہتا ہے سرمد جگنوؤں میں رات بھر لیکن
وہ اپنی بند مٹھی بھی دکھا دیتا تو اچھا تھا